حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات | تیسرے خلیفہ کی زندگی اور کارنامے
اسلامی تاریخ کے افق پر جب صحابہ کرام کے درخشاں اسما ستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں، تو ان میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا نام ایک خاص نورانیت کے ساتھ چمکتا ہے۔ آپ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں ذوالنورین یعنی "دو نوروں والا" کا لقب ملا، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح آپ سے فرمایا۔ نرم گفتاری، حیا شعاری، سادہ مزاجی اور سخاوت مندی میں آپ یکتا تھے۔ آپ کی زندگی نیکی، ایثار و قربانی اور وفاداری کا ایسا آئینہ ہے جس میں دیکھ کر آج بھی ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔
نام و نسب:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پورا نام عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ ہے۔ آپ کا تعلق قریش کے معزز ترین قبیلہ، بنو امیہ سے تھا۔ نسباً آپ کا سلسلہ پانچویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔
خاندانی حالات:
آپ ایک خوش حال اور باوقار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد عفان بن ابی العاص مکہ کے مالدار تاجروں میں سے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد آپ کو ایک بڑی دولت وراثت میں ملی، جسے آپ نے بڑی دانش مندی سے تجارت میں لگایا اور مزید وسعت دی، مگر دنیا کی محبت دل سے نہ لگائی۔
قبولِ اسلام:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ابتدائے اسلام ہی میں دعوتِ حق کو قبول کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعے آپ کو اسلام کی روشنی ملی۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے دعوتِ اسلام پر بغیر کسی جھجک کے لبیک کہا۔ آپ کا قبولِ اسلام قریش کے لیے حیرت کا باعث بنا، کیونکہ آپ ایک معزز، مال دار اور وجیہ نوجوان تھے۔
ہجرت:
اسلام کے خاطر آپ نے ہجرت کے دو عظیم امتحانات کو قبول کیا۔ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی اور بعد میں مدینہ منورہ کی طرف۔ آپ ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے دو بار ہجرت کی اور ہر موقع پر دین کی سربلندی کو اپنا نصب العین بنایا۔
غزوات میں شرکت:
اگرچہ غزوۂ بدر میں آپ اپنی زوجہ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، مگر رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بدر کے مالِ غنیمت میں شامل کیا اور ثوابِ بدر عطا فرمایا۔ دیگر تمام غزوات میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بالخصوص غزوۂ تبوک میں آپ کا مال و جان سے تعاون، بے مثال تھا۔ ایک موقع پر آپ نے تین سو اونٹ فی سبیل اللہ عطیہ کر دیے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی حالت:
نبی کریم ﷺ کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹنے سا تھا۔ ان کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے اور کئی روز تک وہ غم سے نڈھال رہے۔ مگر دین کی خدمت میں کمی نہ آئی۔ وہ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے اصولوں پر ثابت قدم رہے۔
عہدِ صدیقی میں آپ کی حیثیت:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مشیرِ خاص کی حیثیت حاصل تھی۔ قرآنِ کریم کی جمع و تدوین میں بھی آپ نے عظیم کردار ادا کیا۔ ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔
آپ کی خلافت کا پس منظر و پیش منظر:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے باہمی مشورے سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا۔ آپ کی خلافت بارہ سال پر محیط رہی۔ پہلے چھ سال نہایت امن و سکون سے گزرے، اسلامی فتوحات میں وسعت ہوئی، بحری بیڑے کی بنیاد رکھی گئی اور رعایا خوش حال ہوئی۔ مگر بعد کے سالوں میں کچھ فتنہ پرور عناصر نے آپ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ آپ کی نرم طبعی، حلم و بردباری اور رعایا پروری کو مخالفین نے آپ کی کمزوری سمجھ کر آپ کے خلاف استعمال کیا۔
آخر کار وہ وقت بھی آیا کہ آپ کو مدینہ منورہ میں اپنے ہی گھر میں محصور کر دیا گیا۔ پانی اور کھانے کی پابندی کے باوجود آپ صبر کے پہاڑ بنے رہے۔ حتیٰ کہ 18 ذوالحجہ 35ھ کو قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔ آپ کی شہادت تاریخ اسلام کا وہ دلخراش باب ہے جس پر آج بھی اہلِ ایمان کی آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے۔ مگر آپ کا حلم، صبر، عبادت اور فیاضی تا قیامت مسلمانوں کے لیے مشعل راہ رہے گی۔
از: رضى الله خان عليمى مصباحى
18 ذو الحجہ 1446ھ
15 جون 2025 بزوز اتوار
نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔
0 تبصرے
السلام علیکم
براے کرم غلط کمینٹ نہ کریں
شکریہ