مطالعہ: عزم و ہمت اور کامیابی کی ضمانت
قسط دوم
حضرت امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ساری رات امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہاں رہا۔ آپ نے ساری رات اس طرح گزاری کہ مطالعہ کرتے کرتے لیٹ جاتے، کچھ دیر بعد اٹھ بیٹھتے اور پھر مطالعہ کرنا شروع کر دیتے۔ (کچھ دیر طلباء کے ساتھ، ۱۳۵)
محررِ مذہبِ حنفی، امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمۃ سوتے بہت کم تھے۔ زیادہ تر وقت مطالعہ اور لکھنے لکھانے میں گزرتا۔ کسی نے اس بارے میں پوچھا تو بڑا نصیحت آموز جواب ارشاد فرمایا:
"میں کیسے سو سکتا ہوں، حالانکہ مسلمان ہم (علماء) پر اعتماد اور بھروسہ کر کے اس لیے مطمئن ہو کر سوتے ہیں کہ جب کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو ہم امام محمد کے پاس جا کر پوچھ لیں گے، اور اگر ہم سو کر وقت گزار دیں تو اس میں دین کا ضیاع ہے۔" (ایضا)
محدثِ اعظم پاکستان، مولانا سردار احمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے طالب علمی کا زمانہ تھا اور اس وقت آپ کے مادرِ علمی جامعہ رضویہ مظہر اسلام میں بجلی نہیں تھی، اور نہ ہی محلہ سوداگران بریلی میں بجلی آئی تھی۔ دیگر طلبہ تو رات کو سو جاتے، مگر محدثِ اعظم رات کو بارہ، ایک بجے تک میونسپل کمیٹی کے لیمپ کے نیچے کھڑے ہو کر اپنا سبق یاد فرمایا کرتے تھے۔ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمہ کو معلوم ہوا تو مہتمم کو مولانا سردار احمد کے کمرے میں لیمپ کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔ (حیاتِ محدثِ اعظم، صفحہ ۳۴)
ان عظیم ہستیوں کی شب بیداری صرف عبادت یا محنت کے لیے نہ تھی، بلکہ یہ علم سے عشق، مطالعہ سے رغبت اور فکری بلندی کی وہ جستجو تھی جس نے ان کے دلوں کو نیند سے آزاد کر رکھا تھا۔ ان کے لیے رات محض آرام کا وقت نہیں، بلکہ ذہنی روشنی، فکری ارتقاء اور روحانی اطمینان کا لمحہ تھی۔ یہی وہ شب بیداری ہے جو انسان کو ستاروں تلے کتابوں سے ہمکلام کر دیتی ہے ــــــــــــــــ
ستاروں تلے کتابوں سے ہمکلام:
جب رات کی پُرسکون چادر کائنات پر سایہ فگن ہو جاتی ہے، جب دنیا نیند کی آغوش میں چپ چاپ سستانے لگتی ہے، تب کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن کی آنکھوں سے نیند روٹھ جاتی ہے، اور جن کے دل کتابوں کے اوراق سے ہمکلامی کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ ان میں وہی چہرے شامل ہیں جن کا ذکر اوپر آیا __ جن کی راتیں مطالعہ، تحریر اور فکر میں بسر ہوئیں۔
ستاروں کی خاموشی، شب کی تنہائی، اور دل کی لگن یہ تینوں مل کر ایک ایسا ماحول ترتیب دیتے ہیں جہاں علم کی پیاس بجھتی ہے، شعور کے دروازے کھلتے ہیں، اور فکری افق روشن ہوتا ہے۔
شب بیداری محض ایک مشقت نہیں، بلکہ اہلِ علم کا شعار ہے۔ وہ راتیں جب عام انسان راحت کے متلاشی ہوتے ہیں، صاحبانِ علم و فکر علم کے نور میں اپنے قلب و ذہن کو روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے رات کی خاموشی ایک نعمت ہے، جو انہیں کائنات کے گہرے رازوں، فلسفۂ وجود، تاریخِ اقوام، اور فہمِ دین کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہونے کا موقع عطا کرتی ہے۔
یہ مطالعہ کا وہ منظر ہے جو نہ افسانہ ہے نہ مبالغہ؛ یہ سچائی ہے ان روشن اذہان کی، جنہوں نے علم کی محبت میں شب و روز کی تمیز مٹا دی۔ امام غزالی شافعی ابن رشد مالکی علیہما الرحمۃ (مصنف بدایۃ المجتہد) جیسے اکابر کی زندگیاں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان کے فکری و روحانی ارتقاء میں تنہائی کی راتوں کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ ان کی تحریریں، ان کے افکار، اور ان کا عرفان شب کی خلوتوں میں پروان چڑھاــــــــــــــــ
امام ابن جوزی کا مطالعہ اور مشاہدہ:
امام ابن جوزی علیہ الرحمہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ دوسرے لڑکے دجلہ کے کنارے کھیلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور الگ تھلگ بیٹھ کر مطالعہ میں مشغول ہو جاتا تھا۔ (علم اور علماء کی اہمیت، صفحہ ۲۸)
مزید فرماتے ہیں کہ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی تھی۔ جب کسی نئی کتاب پر نظر پڑ جاتی، تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ میں نے زمانۂ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا۔
مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات و اخلاق، ان کی عالی ہمتی، قوتِ حافظہ، ذوقِ عبادت اور علومِ نادرہ کا ایسا اندازہ ہوا جو ان کتابوں کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنے زمانے کے لوگوں کی سطح پست معلوم ہونے لگی اور اس وقت کے طلبۂ علم کی کم ہمتی منکشف ہو گئی۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا، جس میں چھ ہزار کتابیں تھیں۔ اسی طرح بغداد کے مشہور کتب خانے: کتب الحنفیہ، کتب الحمیدی، کتب عبد الوہاب، کتب ابی محمد وغیرہ—جتنے کتب خانے میری دسترس میں تھے، سب کا مطالعہ کر ڈالا۔ (ایضا)
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از؛ محمد اشفاق عالم الأمجدی العلیمیٓ
بچباری آبادپور کٹیــــــــــــــــہار (بہار)
نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔
0 تبصرے
السلام علیکم
براے کرم غلط کمینٹ نہ کریں
شکریہ