Advertisement

مطالعہ: عزم و ہمت اور کامیابی کی ضمانت از: محمد اشفاق عالم الأمجدی العلیمیٓ

مطالعہ: عزم و ہمت اور کامیابی کی ضمانت

قسط اول

انسانی زندگی مسلسل جدوجہد، تعلیم و تعلم اور ایک فکری و عملی تبادلے کا نام ہے۔ ہر وہ فرد جو زندگی میں کچھ حاصل کرنے کا خواہشمند ہو، اسے نہ صرف علم کی طلب ہونی چاہیے بلکہ اس کے حصول کے لیے مسلسل مطالعہ، غیر متزلزل عزم، اور بلند ہمت کا پیکر بھی ہونا چاہیے۔ کامیابی، محض اتفاق یا قسمت کا کھیل نہیں، بلکہ یہ مطالعے سے حاصل ہونے والی بصیرت، عزم و ہمت سے پیدا ہونے والی استقامت، اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ارادے کا ثمر ہوتی ہے۔

مطالعہ، انسان کے ذہن کو جلا بخشتا ہے، اس کی سوچ میں وسعت پیدا کرتا ہے اور اسے دنیا کی بدلتی ہوئی حقیقتوں کا شعور عطا کرتا ہے۔ مطالعہ ایک ایسا آئینہ ہے جو فرد کو اس کی خامیوں، صلاحیتوں اور راستوں کا ادراک کرواتا ہے۔ یہی شعور جب مضبوط ارادوں اور پختہ عزم کے ساتھ جڑ جائے تو کامیابی اس انسان کے قدم چومتی ہے۔  

مطالعہ اور پرمغز نکات

نکتہ أول:

 مطالعہ کا مادہ طلوع ہے۔ اور طلوع پردہ غیب سے عالم ظہور میں آنے کو کہتے ہیں ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے "طلعت الشمس " یعنی سورج عالم غیب سے عالم ظہور میں نمودار ہوا۔ اور مطالعہ مفاعلہ کا باب اور مفاعلہ میں جانین سے برابر کے عمل کو کہتے ہیں اب مطالعہ کا معنی یہ ہوا کہ ادھر طالب علم نے اپنی توجہ کو کتاب کی طرف مبذول فرمائی ادھر کتاب نے طالب علم کو اپنے فیوض وبرکات سے نوازا اب دونوں کے گہرے رابطہ سے کام بن گیا۔

نکتہ دوم:

کسی کو بار بار غور سے دیکھا جائے تو اگر چہ وہ غیر واقف ہو لیکن بار بار دیکھنے سے وہ سمجھتا ہے کہ شاید اسے میرے سے کوئی تعلق ہے اس لئے دیکھنے والے سے وجہ پوچھتا ہے اسی طرح طالب علم نے کتاب کو جب بار بار دیکھا تو کتاب کو اس کے حال پر رحم آیا تو اس نے اپنے انوار و برکات سے طالب علم کو بھر پور کر دیا۔

نکتہ سوم:

علم ایک مخفی خزانہ ہے جس طرح مخفی خزانہ کی ٹوہ میں دقت ہوتی ہے اور نہایت مشقت کے بعد میسر ہوتا ہے اسی طرح علم کے حصول میں کتاب کے مطالعہ میں خوب دماغ سوزی کی جائے تاکہ علمی جواہرات نصیب ہوں ــــــــــــــــ  

تاریخ شاہد ہے کہ جن افراد نے علم کو اپنا زادِ راہ بنایا، جنہوں نے مطالعے سے فکر و فہم کی روشنی حاصل کی اور ہمت و حوصلے سے اپنے راستے خود بنائے، وہی لوگ کامیابی کی بلندیوں کو چھونے میں کامیاب ہوئے۔

سیدنا شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے مطالعہ اور کتب بینی کا حال خود ہوں بیان فرماتے ہیں:

چہ دو رہائے چراغیکہ در دماغ نرفت
کدام بادہ محنت کہ در ایاغ نرفت
کدام خواب و چہ آسائش و کجا آرام
چہ خار خارکہ در بستر فراغ نرفت 
بحیرنم زدل خود کہ عمر رفت وے
زکنج غمکدہ ہرگز بہ صحن باغ نرفت

محدث قدس سرہ نے ان اشعار میں اپنا شب وروز کا مشغلہ بتایا ہے ۔ گویا اس کی شرح ذیل کا واقعہ ہی ہے دور طالب علمی میں شغل مطالعہ کا تذکرہ خود اپنے قلم سے رقم طراز ہیں کہ
"از ابتدائے ایام طفولیت نمی دانم کہ بازی چیست و خواب کدام مصاحبت کیست و آرام چہ و آسائش کو دسیر کجا" بچپن سے میرا یہ حال تھا کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ کھیل کود کیا ہے خواب مصاحبت آرام و آسائش کے کیا معنی ہیں میں نہیں جانتا کہ سیر کیسی ہوتی ہے

شب خواب چہ و سکون کدام ست
خود خواب عاشقان حرام ست

خوردونوش
"ہرگز در شوق کسب دکار طعام بوقت نخوردہ و خواب در محل بزدہ" تحصیل علم میں مشغولیت کی بنا پر کھانا کبھی وقت پر نہیں کھایا اور نیند بھر کر نہیں سویا۔
"ہر روز باوجود غلبۂ برودت ہوائے زمستاں و شدت حرارت تابستان دربار بمد دہلی کہ شاید از منزل مابعد دو میل مے کردم درمیان روز ادنی وقفہ در غریب خانہ بسبب تناول چند لمقہ کہ سبب عادی قوام حرکت ارادی است واقع می سند دائم پدر و مادر من درپے آن لودند کہ یکدم باکود کان جاء بازی کنم یا شب بوقت متعارف پادراز کشم و من می گفتم کہ آخر غرض از بازی خاطر خوش کرد نست و مرا خاطر بہ ہمین خوش است کہ چیزے بخوائم یا مشقے کنم"
میں جاڑے کی ٹھنڈی اور گرمی کے جھلسا دینے والے جھونکوں میں ہر روز دو بار دہلی کے مدرسہ میں جاتا تھا۔ جو ہمارے مکان سے تقریبا دو میل کے فاصلہ پر ہو گا دو پہر کو تھوڑی دیر گھر ٹھہر کر چند لقمے ضرورۃ کھا لیتا تھا میرے والدین ہر چند کہتے تھے کہ تھوڑی دیر کے لئے قوم کے لڑکوں کے ساتھ کھیل لو اور وقت پر سو جاؤ میں کہتا تھا کہ آخر کھیلنے سے مقصد دل کا خوش کرنا ہی تو ہے میری طبیعت اس سے خوش ہوتی ہے کہ کچھ پڑھوں یا لکھوں۔
"گاہے در اثنائے مطالعہ کہ از نیم شب درمی گذشت والدم قدس سرہ مرا فریادمے زد کہ بابا! چہ می کنی ۔ من فے الحال درازی کشیدم تادروغ واقع نشود و می گفتم کہ خفتہ چہ می فرمایند باز برمن می نشستم و مشغول می شدم"
کبھی مطالعہ کے دوران میں ایسا بھی ہوا کہ آدھی رات گزر گئی میرے والد صاحب نے مجھ سے فریاد کی کہ بابا! کیا کرتے ہو میں سنتے ہی فوراََ لیٹ جاتا کہ جھوٹ واقع نہ ہو اور کہتا کہ میں سوتا ہوں آپ کیا فرماتے ہیں جب وہ مطمئن ہوجاتے تو پھر اٹھ بیٹھتا اور مشغول ہوجاتا۔  
اور بسااوقات یوں بھی ہوا مطالعہ کے اثناء میں نیند کے غلبہ سے سرکے بال اور عمامہ جلتے چراغ میں جل جاتے لیکن شیخ مطالعہ کے ذوق سے بدستور منہمک رہتے (سوانح عبد الحق محدث دہلوی)
یہی وہ شیخ محدث دہلوی ہیں جن کی بدولت آج ہندو پاک میں علم حدیث پڑھ کر علماء کی صف میں بیٹھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے طلباء و بعض علمائے کرام مطالعہ کا نام تک نہیں لیتے ــــــــــــــــ

جاری...........


از: محمد اشفاق عالم الأمجدی العلیمیٓ
بچباری آبادپور کٹیــــــــــــــــہار (بہار)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے