اسلام ، استشراق اور حجیتِ حدیث
دنیا کے افق پر ہمیشہ سے دو فکری قافلے رواں دواں رہے ہیں—ایک وہ حق و صداقت کے چراغ تھامے، علم و عرفان کی روشنی بکھیرتے رہے اور دوسرا وہ جو حسد و تعصب کی تاریکی میں گم، اس روشنی کو ماند کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حق کا آفتاب طلوع ہوا، باطل کے بادلوں نے اسے چھپانے کی کوشش کی، مگر یہ سورج نہ کبھی مدھم ہوا، نہ کبھی غروب ہوا۔ یہود و نصاریٰ کی تاریخ بھی اسی رویے کی روشن مثال ہے، جن کے دلوں میں اسلام کے نور نے ابتدا ہی سے ایک ایسی چبھن پیدا کی جو آج تک مدھم نہ ہو سکی۔
ان کی حسرت یہ تھی کہ نبوت کا تاج بنی اسرائیل کے سر پر سجے، لیکن قدرت نے اس شان کو بنی اسماعیل کے لیے منتخب کیا، اور یہ انتخاب ان کے دلوں میں حسد و نفرت کی ایک ایسی چنگاری بھڑکاتا آیا جو آج تک شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔
یہ داستان صرف جنگ کے میدانوں کی نہیں، بلکہ علم و دانش کے ایوانوں کی بھی ہے۔ وہ ایوان جہاں اسلام کی عظمت کو مٹانے کے لیے منصوبے بنے، جہاں تہذیب و تمدن کے ستونوں کو گرانے کی سازشیں کی گئیں اور جہاں اسلام کے علمی ماخذ کو متزلزل کرنے کی بھرپور کوششیں ہوئیں۔ انہی کوششوں کی کوکھ سے ایک تحریک نے جنم لیا، جس نے علم و تحقیق کے لبادے میں تعصب و نفرت کا زہر چھپائے، اسلام کے خلاف محاذ کھولا۔ یہی تحریک "استشراق" کہلاتی ہے، اور اس کے زیر سایہ جنم لینے والے مستشرقین نے اسلامی علوم و معارف کو بگاڑنے اور امت مسلمہ کے شعور کو منتشر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
لفظ استشراق سے ہی مستشرق بنا ہے، جس کی جمع مستشرقین ہے۔
مستشرق کے لغوی معنی ہے: "وہ فرنگی جو مشرقی علوم و فنون کا ماہر ہو۔"
مستشرقین کے توضیحی معنی ہے: وہ مغربی لوگ جنہوں نے علومِ اسلامیہ کو مسخ کرنے، اسلامی تعلیمات میں شکوک وشبہات پیدا کرنے، اسلام کی تشکیل جدید کے نعرے لگانے، قرآن و حدیث کی نئی تعبیرات پیش کرنے اور امت مسلمہ میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کی غرض سے اپنی زندگیاں اسلامی علوم و فنون اور تاریخِ اسلام کے مطالعہ کے لیے وقف کر دیں ہیں۔
ان لوگوں میں یہود و نصاری سر فہرست ہیں اور انہی کو مستشرقین کہا جاتا ہے۔
مستشرقین نے اسلام پر مختلف زاویوں سے حملے کیے، کبھی قرآن کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، کبھی احادیث کی تحقیر کی، کبھی تاریخِ اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کو نشانہ بنایا۔
لیکن ہر دور میں ایسے مردانِ حق و صداقت نے ان کے شب و روز میں دنداں شکن جواب دیے، جن کی علم و عمل کی تلواروں نے ان کی ہر سازش کو چکنا چور کر دیا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: کیا یہ روشنی کی حقیقت کو تاریکی سے مٹایا جا سکتا ہے؟ کیا صداقت کے پرچم کو جھوٹ کی آندھیوں سے گرایا جا سکتا ہے؟ یہی سوال ہماری اس تحریر کا نقطہ آغاز ہے، جہاں ہم استشراق کی تحریک کے مقاصد اور حجیتِ حدیث پر کیے گئے اعتراضات کا تاریخی و علمی جائزہ لیں گے، اور حق کی حقانیت کو دلائل کے چراغ سے روشن کریں گے۔
مستشرقین کا مشہور اعتراض یہ ہے کہ : " جب قرآن میں سب کچھ موجود ہے تو پھر احادیث کی ضرورت کیا ہے؟ "
یہ اعتراض سطحی فکر اور تعصب بھرے ذہن کی پیداوار ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر واضح فرمایا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا منصب نہ صرف قرآن کو پہنچانا تھا، بلکہ اس کی وضاحت اور عملی تطبیق بھی آپ کے فرائضِ نبوت میں شامل تھی۔
قرآن مجید میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف قرآن پاک کو امت تک پہونچانا نہیں تھا، بلکہ قرآن مجید کی تشریح و تبیین بھی آپ کے منصبِ نبوت کا لازمی جز تھا۔ قرآن کریم میں جو احکام اور فرائض بیان کیے گئے ہیں، حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و توضیح کے بغیر ان پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
درج ذیل میں قرآن مجید کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں جن سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ مختار کائنات ﷺ کے فرمودات پر عمل کیے بغیر قرآن پاک پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔
١۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آلِ عمران: 31)
اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (کنز الایمان)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو محبت الٰہی کے دعوے کی واحد دلیل قرار دے رہا ہے اور ان لوگوں کو اپنی محبوبیت اور گناہوں کی بخشش کا مژدہ سنا رہا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع—جو محبتِ خدا کے لیے بھی ضروری ہے اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بھی ہے — بغیر حدیثِ رسول اور سنتِ نبوی کے ممکن ہی نہیں۔
کیونکہ اتباع کا مفہوم ہے:
" الاتباع في الفعل هو التاسي بعينه و التاسي ان تفعل مثل فعله على وجهه من اجله۔ "
یعنی کسی کے فعل کی اتباع کا مطلب یہ ہے کہ اس کے فعل کو اسی طرح کیا جائے جس طرح وہ کرتا ہے اور اس لیے کیا جائے کیوں کہ وہ کرتا ہے۔
اتباع کی اس تشریح سے حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کیے ہیں، وہ اسی طرح کیے جائیں، جس طرح آپ نے کیا اور اس لیے کیے جائیں، کیوں کہ آپ نے کیا۔
ہم مستشرقین اور ان کے ہم نواؤں سے پوچھتے ہیں: کیا قران حکیم کے اس ارشاد پر احادیث طیبہ کی مدد کے بغیر عمل کرنا ممکن ہے؟
قطعا نہیں! کیونکہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کام کرتے تھے اور جس طرح کرتے تھے، اس کا پتہ ہمیں صرف احادیثِ طیبہ چلتا ہے۔
اس لیے ہم قرآن حکیم کے اس ارشاد پر عمل کرنے اور اس میں مذکور انعامات کے حصول کے لیے احادیث طیبہ کے محتاج ہیں۔
۲۔ قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ ( آلِ عمران 32)
تم فرما دو کہ حکم مانو اللہ اور رسول کا پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر۔ (کنز الایمان)
یہ آیتِ کریمہ اللہ تعالی کی اطاعت کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اطاعت کا بھی حکم دے رہی ہے۔ اللہ تعالی کی اطاعت تو ہم قرآن حکیم کی تعلیمات کو اپنا کر عمل کر سکتے ہیں۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اپ کے افعال، اقوال اور تقریرات کی تفصیلات ہمارے سامنے ہوں اور یہ تمام تفصیلات ہمیں صرف احادیث طیبہ میں میسر آتی ہیں۔ اس لیے ہم قرآن حکیم کے اس حکم پر احادیث طیبہ کے بغیر عمل نہیں کر سکتے۔
۳۔ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ (الحشر 7)
ترجمہ: جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو (کنز الایمان)
یہ آیتِ کریمہ مسلمانوں کو حکم دے رہی ہے کہ امورِ حیات میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو تمہیں کام کرنے کا حکم دیں، اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دو اور جس کام سے روکیں، اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی کا علم، احادیث طیبہ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس لیے مسلمان قرآنِ حکیم کی اس آیتِ کریمہ پر عمل کرنے کے لیے بھی احادیث طیبہ کے محتاج ہیں۔
قران مجید کی یہ مذکورہ آیات، جن میں پروردگار عالم نے مسلمانوں کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اطاعت رسول کو محبتِ خدا، اخروی فوز و فلاح اور ایمان و اعمالِ صالحہ کی حفاظت کی بنیاد قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے آپ کے اقوال، افعال اور تقریرات کے محتاج ہیں اور یہی مجموعہ "حدیث" کہلاتا ہے۔
خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىۚ (3)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ (4) (النجم 3-4 )
اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنھیں کی جاتی ہے۔ (کنز الایمان)
معلوم ہوا کہ احادیثِ رسول، قرآنِ مجید سے جدا نہیں بلکہ ایک ہی سمندر کے دو دھارے ہیں۔
الحاصل، ان تمام دلائل و شواہد کے ہوتے ہوئے، کوئی بھی باشعور ذہن یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ قرآن اور حدیث کے رشتہ کو توڑا جائے۔ یہ دونوں ایک مکمل حقیقت ہیں، جیسے سمندر کے دو دھارے جو کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ جس طرح پانی کا قطرہ سمندر سے الگ نہیں ہوسکتا، ویسے ہی قرآن و حدیث کا رشتہ بھی جدا نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے، وہ دراصل اپنی عقل و شعور کی موت کو دعوت دیتا ہے۔
ہم سب پر فرض ہے کہ ہم دین کی تمام ضروریات و لوازمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، تاکہ ہم آخری دم تک ایمان کی روشنی میں استقامت کے ساتھ چل سکیں، اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین پر قائم و دائم رکھے، اور ہمارا خاتمہ بالخیر ہو۔ آمین۔
رضى الله خان عليمى مصباحى
٤، محرم الحرام ،١٤٤٧ھ
30، جون ، 2025ء
نیچے واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔
0 تبصرے
السلام علیکم
براے کرم غلط کمینٹ نہ کریں
شکریہ