Advertisement

قربانی کا پیغام: سنتِ ابراہیمی، ایثار، اطاعت اور ایمان کی روشنی میں عید الاضحیٰ کی حقیقت از محمد صفدر رضا علائی

قربانی کا پیغام اور سنتِ ابراہیمی: ایثار، اطاعت اور ایمان کی عظیم داستان


اللہ تعالیٰ کی عبادات میں کچھ ایسی عبادات بھی ہیں جو محض رسمی عمل نہیں بلکہ اپنے اندر ایک عظیم پیغام، تاریخ اور روحانی تربیت سمیٹے ہوئے ہیں۔ قربانی انہی عبادات میں سے ایک ہے جو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال سنت کی یاد دلاتی ہے۔ یہ محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ عقیدے، وفا، ایثار، قربانی اور اطاعت کی وہ عظیم درسگاہ ہے جس میں ہر مومن کو قدم رکھنا چاہیے۔

قربانی کیا ہے؟

قربانی دراصل اس عمل کا نام ہے جسے اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں سر انجام دیا۔ جب خواب میں بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ملا، تو انہوں نے لمحہ بھر بھی توقف نہ کیا، بلکہ مکمل اطاعت کے ساتھ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر میدانِ منیٰ پہنچ گئے۔ باپ بیٹا دونوں کے چہروں پر ایمان کی روشنی اور رضا کی جھلک تھی۔

یہ کوئی معمولی عمل نہ تھا — ایک باپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی نعمت، اپنی اولاد کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے چلا ہے! یہ واقعہ انسانیت کی تاریخ میں وفا و فدائیت کی سب سے اعلیٰ مثال بن گیا۔ 

قربانی کا اصل پیغام:

قربانی ہمیں محض گوشت کھلانے یا جانور ذبح کرنے کا درس نہیں دیتی، بلکہ یہ ہمیں اپنے نفس، اپنی خواہشات، اپنی خودی، اور اپنے مال کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا پیغام دیتی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَن یَنَالَ اللّٰہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِن یَنَالُہُ التَّقْوٰی مِنکُمْ (الحج: 37)

"اللہ تک نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔"

یہی تقویٰ، یہی خلوص، یہی اخلاص ہی قربانی کی روح ہے۔

سنتِ ابراہیمی کی اہمیت:

سنتِ ابراہیمی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کا حکم ہمیشہ اولین ہے، خواہ وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی اللہ کے حکم کے آگے جھکنے میں صرف کی — چاہے وہ بیوی کو ویرانے میں چھوڑنا ہو، یا بیٹے کو ذبح کرنے چل دینا ہو۔ وہ کامل اطاعت و تسلیم کے پیکر بنے۔

قربانی دراصل اطاعت کا نام ہے، اور یہی اطاعت سنتِ ابراہیمی کا جوہر ہے۔

عصرِ حاضر میں قربانی کا پیغام:

آج جب ہم قربانی کرتے ہیں تو ہمیں صرف ظاہری عمل پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس کے باطن پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں سوچنا ہوگا:

کیا ہم نے اپنے غرور کو ذبح کیا؟

کیا ہم نے اپنی خواہشات کو قربان کیا؟

کیا ہم نے اللہ کے دین کے لیے وقت، مال اور جان قربان کی؟

کیا ہم نے اپنے دلوں میں تقویٰ کو زندہ کیا؟

اگر ہم قربانی کے عمل سے صرف گوشت حاصل کرتے ہیں لیکن اندرون میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، تو ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

قربانی اور معاشرتی پہلو:

قربانی صرف فردی عبادت نہیں، بلکہ اجتماعی خیرخواہی کا ذریعہ بھی ہے۔ جب گوشت رشتہ داروں، غریبوں اور پڑوسیوں میں تقسیم ہوتا ہے تو دلوں میں محبت بڑھتی ہے، معاشرتی ربط قائم ہوتا ہے، اور معاشرے میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے۔ یہی روح ہے اسلامی بھائی چارے کی۔

نتیجہ:

قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے ہمیں سب کچھ قربان کرنا سیکھنا ہوگا۔

یہ ہمیں خلوص، تقویٰ، وفا، ایثار اور اطاعت کا سبق سکھاتی ہے۔ سنتِ ابراہیمی کو زندہ رکھنا صرف جانور ذبح کرنے سے نہیں، بلکہ اپنی زندگی میں اللہ کی اطاعت کو فوقیت دینے سے ممکن ہے۔

آئیے اس سال قربانی کو محض رسم نہ بنائیں، بلکہ اسے ایک مقصد، ایک مشن اور ایک پیغام بنائیں — تاکہ ہماری قربانی واقعی "قرب" کا ذریعہ بن جائے!


از قلم: محمد صفدر رضا علائی
مربت پور پیکبان (کٹیہار بہار)


نیچے واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر کا بٹن دیا گیا ہے ، ثواب کی نیت سے شیئر ضرور کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے